سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر
پُر مسرت زندگی گزارنے کےلیے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اور فطرت کا بندھن ٹوٹنے نہ پائے۔‘‘ یہ الفاظ اردو ادب کے مشہور و معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ہیں۔ یہی بندھن موصوف کو عمر کے اِس حصے میں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور اِن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر لمحہ قدرت کی رنگینیاں دیکھتے جائیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک سیاح کی تعریف بھی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دنیا کی سیاحت پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسے دیوانے ہر ملک و معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جو ایک ایک منظر کےلیے گھنے جنگلوں کے بیچوں بیچ، رواں ندیوں کے کنارے کنارے، کسی جھیل پر اترتی دھندلی خنک شام میں، پہاڑی بستیوں میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے، سردی سے منجمد ہوتے کسی گلیشیئر پر، ریت کے سمندر میں، پرانی تاریخی تہذیبوں کے کھنڈرات میں، کیمپ یا ہوٹل کی بالکونی سے طلوع ہوتے سورج کو دیکھتے، دیوسائی جیسے سرسبز میدانوں میں، آبادیوں اور اپنوں سے کوسوں دور قدرت اور فطرت کے امتزاج کی چاہ میں بھٹکتے پھرتے ہیں؛ اور دنیاانہیں سیاح کے نام سے یاد کرتی ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ دنیا کی