سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

پُر مسرت زندگی گزارنے کےلیے پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اور فطرت کا بندھن ٹوٹنے نہ پائے۔‘‘ یہ الفاظ اردو ادب کے مشہور و معروف سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ہیں۔ یہی بندھن موصوف کو عمر کے اِس حصے میں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور اِن کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر لمحہ قدرت کی رنگینیاں دیکھتے جائیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک سیاح کی تعریف بھی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دنیا کی سیاحت پر نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
ایسے دیوانے ہر ملک و معاشرے میں کثرت سے پائے جاتے ہیں جو ایک ایک منظر کےلیے گھنے جنگلوں کے بیچوں بیچ، رواں ندیوں کے کنارے کنارے، کسی جھیل پر اترتی دھندلی خنک شام میں، پہاڑی بستیوں میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے، سردی سے منجمد ہوتے کسی گلیشیئر پر، ریت کے سمندر میں، پرانی تاریخی تہذیبوں کے کھنڈرات میں، کیمپ یا ہوٹل کی بالکونی سے طلوع ہوتے سورج کو دیکھتے، دیوسائی جیسے سرسبز میدانوں میں، آبادیوں اور اپنوں سے کوسوں دور قدرت اور فطرت کے امتزاج کی چاہ میں بھٹکتے پھرتے ہیں؛ اور دنیاانہیں سیاح کے نام سے یاد کرتی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں قدرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ سایہ فگن ہے۔ دنیا کی 15 بلند ترین چوٹیوں میں سے 6 پاکستان میں ہیں، جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی شامل ہے۔ دنیا کے 3 بلند ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم پاکستان میں گلگت کے قریب پائے جاتے ہیں۔
بلند ترین شندور پولو گراؤنڈ بھی پاکستان میں واقع ہے۔ پاکستان فلک بوس پہاڑوں، بہتے نالوں، سرسبز میدانوں اور رنگ بدلتی جھیلوں کی سرزمین ہے جس میں وادی کاغان کی جھیل سیف الملوک، آنسو جھیل، دودی پت جھیل، شندور پاس کے گہرے نیلے پانیوں کی جھیل اور گلگت بلتستان کی عطا آباد جھیل قابل ذکر ہیں۔
تھر(دنیا کا 17واں بڑا صحرا) اس کے علاوہ تھل، چولستان جیسے صحرائی سلسلوں کا مسکن بھی یہی دیس ہے۔ چولستان کی ایک وجہ شہرت یہاں ہر برس منعقد ہونے والی ’’چولستان جیپ ریلی‘‘ بھی ہے جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں 36 مقامات ایسے ہیں جو عالمی ثقافتی ورثے میں شمار کئے جاتے ہیں۔
پاکستان کو اگر ہم عالمی کینوس پر دیکھیں تو صحراؤں، میدانوں، جھیلوں اور پہاڑوں کی اِس سرزمین کا محل وقوع انتہائی دلچسپ اور اہم ہے۔ اس کا شمالی حصہ کے ٹو اور نانگا پربت جیسی بلند و بالا برفیلے پہاڑی سلسلوں کے پار تقریباً 15000 فٹ بلندی پر چین سے درہ خنجراب کے مقام پر ملتا ہے۔ پنجاب سے خنجراب پاس تک 1300 کلومیٹر طویل شاہراہ قراقرم بھی دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتی ہے۔ جنوب میں بحیرہِ عرب جیسا عفریت، مشرق میں چولستان صحرا کے پار بھارت جب کہ مغرب میں پاکستان کی سرحد ایران اور افغانستان جیسی تاریخی تہذیبوں سے جاملتی ہے۔
پاکستان میں ہزاروں برس پرانی دریائے سندھ کی تہذیب کے آثار اور کھنڈرات بھی سیاحوں کا مرکز نگاہ ٹھہرتے ہیں جن میں 5000 سالہ قدیم شہر ہڑپہ اور موئن جو دڑو کے علاوہ گندھارا تہذیب کا امین ٹیکسلا بھی شامل ہیں جسے 1980ء میں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ ٹیکسلا میں بدھوں کی عبادت گاہیں اور دنیا کی سب سے قدیم بدھ یونیورسٹی کے آثار بھی موجود ہیں۔ گندھارا تہذیب کے آثار پشاور، چارسدہ تخت بائی اور سوات میں بھی ملتے ہیں۔ مہر گڑھ بلوچستان کے کھنڈرات (2500 سے 7000 قبل مسیح)، میانوالی کے قریب کافر کوٹ کے کھنڈرات، کیلاش اور کافرستان کے علاقے، لاہور میں مغل دور کی عالیشان تعمیرات کسی بھی سیاح کو اپنی طرف متوجہ کرنے کےلیے کافی ہیں۔
اس سب کے باوجود کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹریول اینڈ ٹورازم کے مسابقتی اشاریئے (Travel and Tourism Competitiveness Index) کی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 136 ممالک میں پاکستان کون سے نمبر پر ہے؟ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی رینکنگ 124 ہے۔ یعنی دنیا میں صرف 12ممالک ایسے ہیں جو ہم سے پیچھے ہیں۔
قدرت کے بیش بہا قیمتی خزانوں کے باوجود ہماری سیاحت کی جانب توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اِس کی وجہ ہم خود ہیں۔ مانا کہ ہم معاشی اور معاشرتی دہشت گردی کا شکار ملک ہیں مگر ہم نے، ہماری حکومت نے کبھی سیاحت کی انڈسٹری کو اہمیت نہیں دی۔ سیاحت ہماری مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2.8 فیصد بناتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسپین، فرانس اور جرمنی بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ متحدہ عرب امارات 29 جب کہ بھارت بھی پہلے 50 ملکوں کی فہرست میں شامل ہے۔ سوئٹزرلینڈ جو اِس لسٹ میں 10ویں نمبر پر ہے، اس کا سب سے زیادہ انحصار سیاحت اور بینکنگ پر ہے۔
27 ستمبر کو دنیا بھر میں سیاحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد عالمی برادری میں سیاحت کی اہمیت کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اقدار تک لوگوں کو رسائی دینا ہے۔ اُن کا معیار زندگی بلند کرنا، وہاں کے لوگوں کے مسائل کا حل اور اُن کے روزگار میں بہتری کا عمل بھی سیاحت کے فروغ سے وابستہ ہے۔
دنیا میں سیاحت کے فروغ کےلیے نت نئے منصوبے دیکھنے میں آتے ہیں مگر پاکستان میں اِس معاملے میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ بلکہ نئے منصوبوں سے تو ہم قدرت کے عطا کردہ حسن کو بھی گہنا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں سیاحت کو سب سے زیادہ نقصان دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام، وبائی امراض اور قدرتی آفات نے پہنچایا ہے۔ پاکستان میں بھی سیاحت میں کمی کی سب سے بڑی وجہ دہشت گردی ہی ہے۔
دنیا بھر میں 27 ستمبر کی اہمیت کے پیش نظر پروگرام منقعد کئے جاتے ہیں مگر پاکستان میں یہ دن ہر سال خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ سیاحت کی اہمیت کو سمجھا جائے اور ملک بھر میں تفریح گاہوں میں اضافہ کیا جائے۔ دنیا کے ان ممالک کا رول ماڈل اپنے سامنے رکھنا چاہیے جہاں سیاحت بہت بڑی انڈسٹری ہے۔
اقوام متحدہ نے سال 2017ء کو ترقی کےلیے پائیدار سیاحت کا سال قراردیا ہے۔ دعا ہے کہ میرے وطن کے باسی بھی اس ملک کے حسن کی قدر کریں، اِس کی پامالی سے باز رہیں اور ملک کی ترقی میں ہر ایک فرد کی اہمیت کو جانیں۔ میٹرو جیسے منصوبوں سے ہٹ کر، ملک میں سیاحت کا فروغ بین الاقوامی طور پر پاکستان کا ایک اچھا اور خوبصورت پہلو دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور ملک بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے گا۔ مستنصر حسین تارڑ کے اِن الفاظ اور دعا کے ساتھ تحریر کا اختتام ہے کہ،
’’شاندار سورج طلوع ہو رہا ہے… ایک شاندار دن کا سورج، پانچ رنگوں میں، خدا کرے کچھ نہ بدلے، خدا کرے قسمت ساتھ دے‘

Comments

Popular posts from this blog

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟