یہ کس کی جنگ ہے؟

پاکستان پچھلے چند برسوں میں لوڈشیڈنگ,  دہشتگردی, کرپشن سمیت مختلف بحرانوں کا شکار رہا ہے. جن میں سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کو قرار دیا جاتا ہے.ہمارے حکمران اسے کبھی امریکہ کی اور کبھی اپنی جنگ قرار دیتے ائے ہیں مگر ہم بلواسطہ یا بلا واسطہ اس جنگ کے شکار رہے جس کی وجہ سے  پاکستان کو گزشتہ دس برس میں بے  پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جس میں لگ بھگ دس برسوں (2003 سے 2013) میں 48397 پاکستانی شہید ہوئے.آپریشن ظرب عضب کے بعد ان واقعات میں تیزی سے کمی ائی ہے جو خوش آئند ہے مگر ہمارا اج کا موضوع ایک اور جنگ ہے جو اس ملک میں جاری ہے مگر اسکو کوئی اپنی یا پرائی جنگ نہیں کہتا.ایک ایسی جنگ جس میں پاکستان نے گزشتہ دس برسوں (2004 سے 2014) میں ہم 61887 پاکستانی کھوئے اور وہ ہیں ٹریفک
حادثات.
ااسارٹ (ایسوسی ایشن فار سیف انٹرنیشنل روڈ ٹریول) کے
مطابق دنیا بھر میں سالانہ 1.3 ملین افراد روڈ ایکسڈنٹ میں ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ 20 ملین سے زائد زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں. جبکہ ان حادثات کا شکار 50 فیصد افراد کی عمریں 15 سے 44 سال کے درمیان ہوتی ہیں. روڈ حادثات کو دنیا میں موت کی نویں بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے اور اگر اسی رفتار سے حادثات ہوتے رہے 2030 تک یہ دنیا میں اموات کی پانچویں بڑی وجہ ہوگی. انہیں دنیا میں 15 سے 29 برس تک کے افراد کی اموات کی سب سے بڑی وجہ سمجھا جاتا ہے. دنیا میں 90 فیصد حادثات مڈل کلاس ترقی پذیر ممالک میں پیش اتے ہیں جہاں دنیا کی صرف 54 فیصد گاڑیاں چلتی ہیں جبکہ باقی 10 فیصد حادثات ان ترقی یافتہ ممالک میں پیش اتے ہیں جہاں دنیا کی 46 فیصد گاڑیاں چلتی ہیں. ان ٹریفک حادثات کی وجہ سے سالانہ 518 بلین ڈالر کا مالی نقصان بھی ہوتا ہے. امریکہ میں ہر سال 30،000 ہزار افراد ان حادثات کی نظر ہو جاتے ہیں. دنیا میں سب سے کم حادثات یورپ جبکہ سب سے زیادہ افریقہ میں ہوتے ہیں.

اگر صرف پاکستان کو دیکھا جائے تو 05-2004 میں 5112، 06-2005 میں 4868، 07-2006 میں سب سے زیادہ 10466، 08-2007 میں 5616, 09-2008 میں 4907، 10-2009 میں 5280، 11-2010 میں 5271 ، 12-2011 میں 4758, 13-2012 میں 4719،  14-2013 میں 5421 افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہوئے.یوں  مجموعی طور پر ان دس برسوں (2004 سے 2014) میں 61882 افراد ٹریفک حادثات میں جاں بحق ہوئے.زخمی یا معذور ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے. اگر ہم اس تعداد کا موازنہ انہی دس سالوں میں دہشت گردی کی نذر ہونے والے 48397 پاکستانیوں سے کریں جو کہ ایک بڑی تعداد ہے مگر یہ تعداد روڈ حادثات کو اموات سے 20 گنا کم ہے.یعنی ایک ایسے جنگ جس نے ہماری 48397 پاکستانی چھین لیئے انکے لئے تو اپریشن ضرب عضب کیا جائے جو کہ کامیابی سے جاری ہے. مگر دوسری طرف ایسی جنگ جس میں ہم نے دہشتگردی سے 20 گنا زیادہ پاکستانی کھوئے اسکا کوئی سدباب نہیں کرتا.اس جنگ کو کون روکے گا ؟کیا اس کے لیے بھی ایک اپریشن ضرب عضب فوج  ہی کو  کرنا پڑےگا اور ہماری نام نہاد جمہوری حکومت اورادارے لمبے
تان کے سوتے رہیں گے؟
اسکے حل کے لیے حکومت کو سنجیدہ کوششیں کرنی پڑیں گی. 2005 میں (یو این)یونائٹیڈ نیشن نے روڈ سیفی ایکٹ کے نام سے ایک قانون پاس کیا جس کے تحت روڈز کی تعمیر سے لیکر ٹریفک سگنلز تک کچھ پیرامیٹرز طے کیے گئے جو ان حادثات میں کمی کر  سکتے ہیں. یو  این نے 21 نومبر (ہر نومبر کے تیسرےہفتے) کے دن کو ان افراد کے نام سے منسوب کیا جو روڈز حادثات میں مارے جاتے ہیں. The day of rememberence پر مختلف ممالک اور این جی اوز کی جانب سے اگاہی کے لیے تقاریب مرتب کی جاتی ہیں.
مگر گزشتہ ماہ پاکستان میں یہ دن ایا اور چپکے سے گزر گیا نہ میڈیا میں کوئی خاطر خواہ پراگرامز دکھے نہ سرکاری سطح پر کوئی تقریب دیکھنے میں ائی.  ضرورت اس امر کی ہے ہم اس روڈ سیفٹی ایکٹ کو ایئن کا حصہ بنائیں. ورنہ بقول جاوید چوہدری کے ہمیں کسی اور بیرونی جنگ یا دشمن کی ضرورت نہیں ہم میں سے ہر شخص روڈ پر چلتا پھرتا خودکش بمبار ہے اور ہم روڈز پر اپنی موت جیب میں لیے پھرتے ہیں.

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟