12 ربیع الاول لمحہ فکریہ...
ہر طرف انتہائی خوبصوت روشنیوں کی بہاریں تھی ،رات کے 9 بج رہے تھے مگر سارے شہر میں چراغاں کے باعث دن کا منظر تھا.میں بھی چہل پہل دیکھ کہ باہر نکل ایا, گل میں جگہ جگہ دودھ کی
سبیلیں لگی تھی اور کہیں کہیں لنگر تقسیم ہو رہا تھا میں بازار کی طرف مڑ گیا اچانک کانوں کو کچھ عجیب سی اواز پڑی جو موقع محل کی مناسبت سے بالکل مناسب نہ تھی مگر جوں ہی میں موڑ مڑ کے مارکیٹ کی طرف ایا اواز واضح ہوگئی ایک گاڑی بازار کےبیچو بیچ کھڑی تھی سارے دروازے کھلے اور والیم فل تھا اور ایک انتہائی واہیات انڈین گانا بج رہا تھا اور چند نوجوان لڑکے ڈانس کر رہے تھے اور اس پہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انکے اردگرد اچھے خاصی تعداد میں لوگ کھڑے انکے ڈانس سے محذوز ہو رہے تھے. یہ 12 ربیع الاول کا دن تھا اور محمدی امت اج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ولادت کا دن منا رہے تھے .انتہائی ادب کے ساتھ اس دن کو سب نے اپنی مرضی کے مطابق منایا ہر طرف سجاوٹ, لنگر اور چہل پہل تھی. مجھے کسی کے بھی کسی طرح اس دن کو منانے سے اختلاف نہیں نہ ہی ہماری کوئی اوقات ہے کہ اپنے کسی قول فعل سے نبی پاک کی ذات صفات میں کوئی کمی یا زیادتی کرسکیں.مگر کیا اچھا ہوتا اس دن کی اہمیت کے مطابق ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ایک عادت کا اپنانے کا عہد کرتے کوئی ایک برائی گناہ چھوڑنے کا عہد کرتے ,لاکھوں روپے سے جو چراغاں ہر گلی محلے کو روشن کرگیا مگر ہمارے اندر ویسی ہی گھٹن ویسی ہی تاریکی ہے.کیوں؟ لنگر سے بھوکوں کو کھاناملانا انتہائی احسن کام ہے مگر سجاوٹ برقی قمقموں مہنگی محافل کے دکھاووں کی بجائے ہم اسے کسی کی مدد کے لیے استعمال کرتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟
اج کے ہی دن ملتان میں ایک باپ نے
غربت سے تنگ اکر اپنی بیوی اور چار بچوں کو زہر دے کہ خودکشی کرلی,جبکہ اج کہ دن لاکھوں روپے تقریبات کی نظر ہو گیا .کیا اس پیسے سے ایسے کسی گھرانے کی امداد نہیں ہوسکتی تھی.غربت کے باعث خودکشیوں کا یہ خطرناک رجحان بڑھ رہا ہے مگر حکومت سے لیکر عام آدمی تک کسی کو فکر نہیں. گلی گلی ہونے والے اس چراغاں کے بجائے تھوڑی ایسی روشی کا کبھی ہم نے سوچا جس
سے ہمارا اندر بھی روشن ہو جائے.میرے نبی پاک نے طائف میں پتھر اس لیے کھائے کہ یہ امت انکی یوم پیدائش/وفات پر واہیات گانوں پر ناچتی پھرے؟ کربلا میں اہل بیت کے سر نیزوں پر اس لیے ٹنگ گئے کہ ہم اللہ کے نبی کو ایک دن یاد کر کے بھلا دیں؟میرے اقا ساری ساری رات مصلے پر اس امت کے لیے روتے جو اج اسکی گستاخیاں کر رہی ہے. چند بتیاں چند فلک شگاف نعروں سے ہم نے محمدی ہونے کا حق ادا کردیا؟ ہمارے اقا نے یقینا رسالت کا حق ادا کردیا مگر کیا یہ امت اپنا حق ادا کر رہی ہے؟ اج جب میں اس چراغاں پر ایک نظر ڈالتا ہوں اور دوسری نظر اپنے اندر قلب کی تاریکی ویرانی پر ڈالتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے. میں نے اس نبی پاک کے امتی ہونے کا حق ادا نہیں کیا, ہم اسکی سنتوں کا مذاق اڑائیں گے تو روز محشر کس منہ سے اسے شفاعت کی درخواست
کریں گے؟ محمدی ہونے کی بجائے سنی وہابی ہماری پہچان ہو تو کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟جب سب ہی ایک دوسرے کو کافر کا خطاب دیں تو جنت کس کے لیے بنائی گئی؟ کیا ہم خود اس گلشن کو اپنے ہاتھوں سے نہیں اجاڑ رہے؟ کون سوچے گا مقصد حیات کیا ہے؟ جاگ جاو اسے پہلے کہ ہمیشہ کے لیے سو جاو .اللہ ہم سب کوہدایت دے اور سچا محمدی بنائے امین.
سبیلیں لگی تھی اور کہیں کہیں لنگر تقسیم ہو رہا تھا میں بازار کی طرف مڑ گیا اچانک کانوں کو کچھ عجیب سی اواز پڑی جو موقع محل کی مناسبت سے بالکل مناسب نہ تھی مگر جوں ہی میں موڑ مڑ کے مارکیٹ کی طرف ایا اواز واضح ہوگئی ایک گاڑی بازار کےبیچو بیچ کھڑی تھی سارے دروازے کھلے اور والیم فل تھا اور ایک انتہائی واہیات انڈین گانا بج رہا تھا اور چند نوجوان لڑکے ڈانس کر رہے تھے اور اس پہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انکے اردگرد اچھے خاصی تعداد میں لوگ کھڑے انکے ڈانس سے محذوز ہو رہے تھے. یہ 12 ربیع الاول کا دن تھا اور محمدی امت اج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ولادت کا دن منا رہے تھے .انتہائی ادب کے ساتھ اس دن کو سب نے اپنی مرضی کے مطابق منایا ہر طرف سجاوٹ, لنگر اور چہل پہل تھی. مجھے کسی کے بھی کسی طرح اس دن کو منانے سے اختلاف نہیں نہ ہی ہماری کوئی اوقات ہے کہ اپنے کسی قول فعل سے نبی پاک کی ذات صفات میں کوئی کمی یا زیادتی کرسکیں.مگر کیا اچھا ہوتا اس دن کی اہمیت کے مطابق ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ایک عادت کا اپنانے کا عہد کرتے کوئی ایک برائی گناہ چھوڑنے کا عہد کرتے ,لاکھوں روپے سے جو چراغاں ہر گلی محلے کو روشن کرگیا مگر ہمارے اندر ویسی ہی گھٹن ویسی ہی تاریکی ہے.کیوں؟ لنگر سے بھوکوں کو کھاناملانا انتہائی احسن کام ہے مگر سجاوٹ برقی قمقموں مہنگی محافل کے دکھاووں کی بجائے ہم اسے کسی کی مدد کے لیے استعمال کرتے تو کیا اچھا نہ ہوتا؟
اج کے ہی دن ملتان میں ایک باپ نے
غربت سے تنگ اکر اپنی بیوی اور چار بچوں کو زہر دے کہ خودکشی کرلی,جبکہ اج کہ دن لاکھوں روپے تقریبات کی نظر ہو گیا .کیا اس پیسے سے ایسے کسی گھرانے کی امداد نہیں ہوسکتی تھی.غربت کے باعث خودکشیوں کا یہ خطرناک رجحان بڑھ رہا ہے مگر حکومت سے لیکر عام آدمی تک کسی کو فکر نہیں. گلی گلی ہونے والے اس چراغاں کے بجائے تھوڑی ایسی روشی کا کبھی ہم نے سوچا جس
سے ہمارا اندر بھی روشن ہو جائے.میرے نبی پاک نے طائف میں پتھر اس لیے کھائے کہ یہ امت انکی یوم پیدائش/وفات پر واہیات گانوں پر ناچتی پھرے؟ کربلا میں اہل بیت کے سر نیزوں پر اس لیے ٹنگ گئے کہ ہم اللہ کے نبی کو ایک دن یاد کر کے بھلا دیں؟میرے اقا ساری ساری رات مصلے پر اس امت کے لیے روتے جو اج اسکی گستاخیاں کر رہی ہے. چند بتیاں چند فلک شگاف نعروں سے ہم نے محمدی ہونے کا حق ادا کردیا؟ ہمارے اقا نے یقینا رسالت کا حق ادا کردیا مگر کیا یہ امت اپنا حق ادا کر رہی ہے؟ اج جب میں اس چراغاں پر ایک نظر ڈالتا ہوں اور دوسری نظر اپنے اندر قلب کی تاریکی ویرانی پر ڈالتا ہوں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے. میں نے اس نبی پاک کے امتی ہونے کا حق ادا نہیں کیا, ہم اسکی سنتوں کا مذاق اڑائیں گے تو روز محشر کس منہ سے اسے شفاعت کی درخواست
کریں گے؟ محمدی ہونے کی بجائے سنی وہابی ہماری پہچان ہو تو کیا یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں؟جب سب ہی ایک دوسرے کو کافر کا خطاب دیں تو جنت کس کے لیے بنائی گئی؟ کیا ہم خود اس گلشن کو اپنے ہاتھوں سے نہیں اجاڑ رہے؟ کون سوچے گا مقصد حیات کیا ہے؟ جاگ جاو اسے پہلے کہ ہمیشہ کے لیے سو جاو .اللہ ہم سب کوہدایت دے اور سچا محمدی بنائے امین.
Comments
Post a Comment