اعمال کے جھٹکے


اچھے معاشرے زندہ قوموں کا ائینہ ہوتے ہیں اور زندہ قومیں کسی نظریہ پہ زندگی گزارتی ہیں. افراد کے ہجوم کو ہم قوم نہیں کہتے. بدقسمتی سے پاکستان اپنی پیدائش کے ساتھ سے ہی بیرونی سازشوں کا شکار ہوتا ایا ہے جس کی مثال ہم مشرقی پاکستان کی لے سکتے ہیں اور اسکی ساری ذمہ داری ہم بھارت کے کندھے پر ڈالتے ہیں.مگر یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے جیسے تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں نے ہی پہنچایا ویسے ہی پاکستان کے راستے میں سب سے زیادہ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں. بیرون ملک پاکستانیوں کا تشخص ہو یا اندرون ملک قانون کا احترام ہو ہم ہمیشہ سے اس میں ناکام رہے ہیں, تبدیلی کی تلاش میں جلسے جلوسوں میں تو بڑے ذوق شوق سے جاتے ہیں مگر اس 6 فٹ کے وجود کے اندر ہم نے کبھی جھانکنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی. یہ ہمارے اعمال ہیں جن کی سزا کبھی دہشت گردی,سیلابوں, زلزلوں یا کرپٹ حکمرانوں کی صورت میں ہم پر مسلط ہیں. 
ظلم کی چکی میں پس کہ کبھی بغاوت جنم لیتی ہے تو کبھی جرائم. پاکستان میں گزشتہ 8 سالوں (2004-2012) میں مجموعی طور پر 114764 قتل کے , 138456 اغوا کے, زیادتی کے 2886 اور 35661 ڈکیتی کے کیس درج  ہوئے,واضح رہے کہ یہ وہ کیس ہیں جو رجسٹر ہوئے اور انکی زیادہ تعداد پنجاب سے ہے جبکہ باقی صوبوں سمیت کتنے ایسے واقعات ہیں جن کہ نہ کیس درج ہوتے ہیں نہ وہ میڈیا کی زینت بنتے ہیں.
اگر ہم کہتے ہیں کہ یہاں امن ہے تو یہ عزاب ہم پر کیوں ؟کیا اسے ہم امن کہیں گے جہاں لوگوں کی محافظ پولیس ماڈل ٹاون میں خون کی ہولی کھیلتی ہو,جعلی پولیس مقابلوں میں سینکڑوں مبینہ ملزموں کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہو,جہاں ہر دس گھنٹے میں غیرت کے نام پر1  قتل ہوتا ہو دوسروں کی عزتیں پامال ہوتی ہوں.جہاں مناواں کے اکرم  کے تنخواہ مانگے کی پاداش میں دونوں ہاتھ کاٹ دیے جائیں, جہاں دن دھاڑے لاہور میں 16 سالہ بچی کو  اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا جائے,جہاں ہسپتالوں میں بچے کبھی اکسیجن نہ ہونے سے مرتے ہوں اور کبھی انہیں چوہے کتر کے کھا جاتے ہوں, جہاں ایک ریڑھی بان سے لیکر ملک کے صدر تک کرپشن, جھوٹ کی لعنت میں مبتلا ہوں. جس معاشرے کے ماتھے پر30سالہ  مختاراں مائی, 13 سالہ کائنات سومرو,اور26  شازیہ خالد ریپ کیسز کا ٹیکہ لگا ہو, جہاں ریپ کے 20 فیصد کیسز میں اس ملک کی پولیس شامل ہوں, جہاں ہر دو گھنٹے میں 1 زنا اور ہر 8 گھنٹے میں 1 گینگ ریپ ہوتا ہو, جہاں ہر سال 10 ہزار کے لگ بھگ قتل ہوتے ہوں, جانوروں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو, جہاں بچوں بچیوں سے زنا بالجبر معمول کی بات ہو, سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو ڈنڈے مار مار کے قتل کردیا جاتا ہو اور عوام مجرمانہ خاموش تماشائی بنی رہے, جہاں قصور میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلا دیا جائے جہاں کے مسلمان سمیت اقلیت میں برداشت برائے نام نہ ہو. جہاں مسیحی بستیاں جلا دی جاتی ہو بدلے میں مسیحی کسی راہ چلتے کو پکڑ کے زندہ جلا دیتے ہوں ,جہاں راجہ بازار میں مدرسوں میں بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہو,جہاں زلزلے اور بم دھماکے میں بھی لوگ دوسروں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوں,جہاں سیلابوں کو کمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو, جہاں ہسپتالوں سے بچے غائب کر کے بیچ دیے جاتے ہوں,جہاں دوا سے لیکر دعا تک سب میں ملاوٹ ہوتی ہو,جہاں مریض کو کسٹمر کے طور پر لیاجاتاہو,جہاں 10،10 لاکھ کی مذہبی سیاسی محافل تو منعقد ہوتی ہوں مگر کوئی غریب کا پرسان حال نہ ہو,جہاں ماں بچوں سمیت ٹرین کے اگے کود جاتی ہو یا باپ سارے کنبہ کو زہر دے کہ چھوٹے بچے کہ اس سوال سے جان چھڑا لیتا ہو کہ بابا اج بھی روٹی نہیں ملے گی؟ جہاں انسان جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہوں, جہاں 80 فیصد دودھ ملاوٹی اور 70 فیصد خوراک ناقص ہو, جہاں 72 فیصد خواتین قیدیوں کو جیل میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہو.جہاں ایک غریب کی ائندہ نسلیں کسی پٹواری یا,عدالت کے چکر سے ہی نہ نکل سکتے ہوں.کہاں تک لکھوں یہ درد کے فسانے میں.ایک نظام کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے  مگر ظلم کے ساتھ نہیں. اور ایسا معاشرہ جہاں صرف ظلم ہو جہاں سب چلتا ہو وہ معاشرا پھر  مشکل سے ہی چلتا  ہے مجھے ہنسی اتی ہے جب ان رویوں کے ساتھ عالم بے عمل قسم کے لوگ  ابوبکر و عمر کی مثالیں دیتے ہیں عمر تو وہ تھے کہ جو زمین کے لرزنے پر اسے لاٹھی سے یہ کہہ کہ چپ کروا دیتے کہ کیا تم پر عمر انصاف نہیں کرتا؟ جن کہ عہد میں کوئی بھوکا نہیں سوتا جہاں لاکھوں روپے رسمی عبادات کی نظر نہیں ہوتا. غلطی ہماری ہے مگر پھر بھی ہم پوچھتے ہیں کہ  یہ زلزلے کیوں اتے ہیں یہ زلزلے نہیں ہمارے اعمال کے جھٹکے ہیں.

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

طیبہ کیس اور ہم

12 ربیع الاول لمحہ فکریہ...