زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟
پاکستان خصوصا پنجاب میں چند ہفتوں سے سموگ نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ دھند سے مشابہت رکھتی یہ فضائی آلودگی سینے ، پھیپڑوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ اب یہ سلسلہ لاہور سے ہوتا ہوا تقریبا پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ لوگ بارش کے لئے ترس گئے ہیں کہ دو ماہ سے زمین نے بارش کا قطرہ نہیں چکھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ فیکٹریوں ، گاڑیوں سے نکلنے والا کثیف دھواں اور آلودگی یے مگر ہمارے بعض علما کرام اس حالت کو قیامت کی ایک نشانی بھی قرار دے رہے ہیں جس کی نشاندہی قران ان الفاظ میں کرتا ہے۔
" فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ۔ يَغْشَى النَّاسَ هَٰذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ۔(سورہ دخان آیت 10،11)
تو اس دن کا انتظار کرو کہ آسمان سے صریح دھواں نکلے گا۔ جو لوگوں پر چھا جائے گا۔ یہ درد دینے والا عذاب ہے۔
کچھ لوگ اسے اتفاق کریں گے اور اختلاف۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم میں سے اکثریت کے اعمال و کردار زوال کا شکار ہیں۔ گلی کے نکڑ پر ریڑھی لگاتے مزدور سے لیکر ملک کے اعلی ترین عہدے تک سب موقع ملتے ہی ہاتھ صاف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ چاروں صوبوں کے حالات آپکے سامنے ہیں۔ سندھ ، بلوچستان ، کے پی کے سمیت پورے پاکستان میں کرپشن، جرائم، ظلم، بھوک، غربت اور حکمرانوں کی بے حسی سمیت متعدد مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پاکستان کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔لاہور ،فیصل اباد اور رائےونڈ جہاں حکومت وقت کے محل ہیں وہاں عورتیں سڑکوں پر بچے جن رہی ہیں اور ڈاکٹر انہیں ہسپتال داخل نہیں کرتے۔ہسپتالوں سے رفاحی اداروں تک کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جہاں کا ڈاکٹر مریض کے لئے مسیحا نہیں بلکہ دکاندار اور مریض ان کے لئے گاہک ہیں۔ ریڑھی والا بھی مال دکھائے کچھ اور بیچے کچھ۔ جہاں معاشرے میں ظلم عام ہو۔ زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا۔وزن اور چمک بڑھانے کے لئے ادرک میں تیزاب ملاتے ہیں۔۔بغیرٹماٹر کے کیچپ اور بغیر بھینس کے دودھ ہم بنا لیتے ہیں۔۔مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے تیل ہم نکالتے ہیں۔۔۔ گٹروں کی گندی چکنائی 60 روپے کلو فروخت کر کے ان سے برتن دھونے کا صابن ہم تیار کرتے ہیں۔۔اینٹ سے بجری، مرچ سے تیل،کریم سے دودھ، دوا سے دم تک ہر چیز میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ انسان تو کجا ہم تو جانوروں کے کھل بنولہ میں گلی سٹی کاٹن، لکڑی کا برادہ، چونا اور زہریلا رنگ ملاتے ہیں۔ ہم نے تو جانوروں کو بھی نہیں بخشا۔غرض ہر چیز جعلی اور صرف دکھ اصلی رہ گئےہیں۔ پھر ہم کیوں شکوے کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے حالات نہیں بدلتا ہم خود کیا کر رہے ہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ہمیں فرصت نہیں۔ اللہ کی ناراضگی کی بھی ہمیں پرواہ نہیں۔ دو ماہ سے زمین پر بارش کا ایک قطرہ نہیں گرا۔فصلیں برباد ہو رہی ہیں۔ ہماری فضا تک ہمیں بیمار کر رہی ہے لیکن ہم ہر بات کا ملبہ غیروں پر ڈالتے ہیں کیا ہمارے چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے اور گوبر بھارت یا امریکہ ملتا ہے؟ نہیں یہ ہم ہیں جن کے ماتھوں پر محراب لیکن دلوں میں داغ ہیں۔ہمارے سب سے بڑے دشمن ہم خود ہیں۔اجتماعی بے حسی اور بے راہ روی کا شکار اس قوم کو اجتماعی توبہ کی ضرورت ہے۔دوسری جانب عوام خاموشی سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے جمہوری چکی کے دو پاٹوں میں ایک عرصے سے پسے چلے جا رہے ہیں۔گذشتہ دہائی میں 60 ہزار سے زائد جانیں دہشتگردی جبکہ 90 ہزار سے زائد روڈ ایکسیڈنٹ کی نظر ہو چکی۔ ملک میں کوئی ٹرانسپورٹ پالیسی ہے نہ تعلیمی پالیسی۔معیشت قرضوں کی بوجھ تلے دبی ہے۔پاکستان کی صف اول کی یونیورسٹی کئی دنوں سے سیاسی یونینز کے باعث بند پڑی ہے۔ ہسپتال ہمارے گندے۔ ہوٹلوں میں ہم کتے ،گدھے عوام کو کھلاتے ہیں۔ ڈیم ہم بننے نہیں دیتے جس کے باعث قحط سالی شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی۔ مذہب سے لیکر سیاست تک ہم میدان میں تقسیم اور گروہی اختلافات کا شکار ایک دوسرے کے خون کے پیاسے۔ ہمارے تھانے اور عدالتیں انصاف سے عاری، غرض کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں ہم زوال کا شکار نہ ہوں ۔ یونہی پستے جائیں گی جب تک سوچیں گے نہیں۔۔ مگر کون سوچے گا؟؟
Comments
Post a Comment