آخری لکڑی

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک لکڑہارے کے پاس ایک گدھا تھا وہ روز شہر سے جنگل جاتا, لکڑیاں کاٹتا گدھے پر لادتا اور شہر آکہ بیچ دیتا,یوں اسکی گزر بسر ہو جاتی.ہاتھ تنگ تھا مگر گزارا چل رہا تھا.ایک دن لکڑہارے کو ضرورت سے زیادہ لکڑیاں مل گئی.اس نے گدھے کو لکڑیوں سے لادنا شروع کردیا جوں جوں وہ لکڑیا لادتا چلا گیا گدھا جھکتا گیا. ایک وقت ایا گدھا پوری طرح لکڑیوں سے بھر گیا مگر چند لکڑیاں پھر بھی بچ گئی لکڑہارے نے سوچا بس یہ اخری اور ایک اور لکڑی رکھ دی پھر سوچا بس یہ اخری اور ایک لکڑی رکھ دی,  کرتے کرتےایک لکڑی بچ گئی لکڑہارےنے جونہی وہ اخری لکڑی گدھے پر رکھی گدھا دھڑم سے نیچے ارہا اور ساری لکڑیاں بکھر گئی.
ہمارا موجودہ نظام بھی بالکل اسی طرز پر جاری ہے, حکمرانوں کی مثال لکڑہارے کی,عوام کی گدھے اور لکڑیاں ان مثائل کی نشاندہی کرتی ہیں جو ہمارے حکمران برسوں سے اس عوام کے کندھوں پر لادے جا رہے ہیں.
بدقسمتی سے ہمیں ایسے حکمران ملے جنہوں نے افتوں سے لیکر عوامی فلاح کے منصوبوں تک صرف سیاست کی اورنعرہ ہمیشہ خدمت عوام کی کا لگایا.میٹرو,نندی پور سمیت ایسے منصوبوں کو اہمت دی جن کی تشہیر کی جاسکے. چائنہ اکنامک کاریڈور ہو یا پاک ایران گیس پائپ لائن, ریلوے ہو یا پی آئی اے,اسٹیل مل ہو یا واپڈا کونسا ایسا ادارہ ہے جو سیاست کی نظر ہو کہ برباد نہیں ہوا.فوج کے علاوہ عدلیہ,نیب ایف ائی اے,پولیس سمیت کونسا ایسا ادارہ ہے جو اپنا کام ٹھیک طریقے سے انجام دے رہا ہے, عدالت میں بےگناہوں کے کیس کا فیصلہ انے تک عمریں بیت جاتی ہیں,پٹواریوں کی مٹھی گرم کرتے کرتے لوگ کنگلے ہو جاتے ہیں ,پولیس کیسے جرائم پیشہ طاقتور عناصر کی گھر کی باندی بنی ہوئی ہے اسکی مثال ماڈل ٹاون میں سب نے دیکھی اور عوام کو خصوصا پنجاب پولیس سے کتنی نفرت ہے یہ سب جانتے ہیں.
پٹواری, وکیل,ڈاکٹر, مزدور جس کا جہاں داو چلے دوسروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں.کراچی کی بدامنی میں سندھ حکومت اور پولیس کا کردار واضح کرتا ہے کہ یہ ادارے مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں,یہ تو بھلا ہو رینجرز کاجنہوں نے کراچی کا 80 فیصد امن بحال کردیا اور باقی کے امن بحالی میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں کیونکہ اس سے انکے اپنوں پر ہاتھ پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے. رینجرز اختیارت محدود کرنے کے معاملے پر سندھ حکومت کا موئقف,وفاقی حکومت کہ چپ حالات کی سنگینی کا پتہ دیتی ہے کہ کیسے فرینڈلی اپوزیشن اور حکومت ایک ہی سکے کہ دو رخ ہیں.سندھ حکومت کی طرف سے تو کرپشن کے حق میں ایسے ایسے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ خدا کے پناہ. حکومت سندھ کے مطابق رینجرز ٹارگٹ کلنگ, بھتہ خوری,اغوا برائے تاوان جیسے اقدامات تک محدود رہے. کرپشن پر ہاتھ ڈالنا رینجرز کے حدود سے تجاوز ہے جو سندھ پر حملہ سمجھا جائےگا,یعنی کرپشن پر حملہ سندھ پر حملہ ہے. مگر عسکری اداروں کی جانب سے چپ چاپ کام جاری رکھنے پر زور دیا گیا ہے اور یہی انہیں کرنا بھی چاہیے.یہ تو مانا ہوگا کہ کرپشن کے تانے بانے کہیں نہ کہیں دہشتگردی سے جا ملتے ہیں اس لئے رینجرز کرپشن,دہشتگردی سمیت کراچی کے تمام مسائل کے حل پر توجہ دیگی,اگر خدا نہ کرے وہ عناصر جو سندھ اپریشن کی وجہ سے تتر بتر ہو گئے ہیں پھر جمع ہو کہ کوئی بڑی کروائی کردیتے ہیں تو اسکی ذمہ داری سائیں کے ناتواں کندھوں پر ہوگی؟جو اپنا بوجھ مشکل سے اٹھائے پھرتے ہیں. صانحہ صفورا, بلدیہ فیکٹری جیسے واقعات کے مظلوموں کو انصاف ملا؟ انکی ذمہ داری پولیس نے قبول کی؟ اس دوران اگر حکومت سندھ نے کوئی رئیکشن دیا یا وفاقی حکومت نے کرپشنستان کے حق میں کوئی قدم اٹھا یا تو یہ پرانا بوسیدہ دیمک زدہ نظام یا گدھے کی اخری لکڑی ثابت ہو گا جس کے بعد ہو سکتا ہے اس نام نہاد جمہوریت کی بساط ہی لپیٹی جاسکتی ہے. اس لئے وفاقی حکومت, سندھ حکومت سمیت سب کی بقا اسی میں ہے ملک کے مفاد میں جو بہتر ہے اس میں عسکری حکام کا ساتھ دیں اس سے انکی رہی سہی عزت بھی بہال رہے گی اور عوام کی نظروں میں کچھ انکی وقعت پیدا ہوگی. ورنہ پیپلزپارٹی اپنے اقدامات سے تو وفاق سمیت تین صوبوں سے صفایا کروا چکی ہے مزید یہ فیصلہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی تابوت میں اخری کیل ثابت ہوسکتا ہے.

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟