16 دسمبر
کہا جاتا ہے کہ وقت ایک دریا کی ماند ہوتا ہے اور وقت کا دھارا بھی ہمیشہ اگے کو بہتا ہے اور ہر منظر, واقعہ, گزرا لمحہ ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو جاتا. تاریخ کبھی اپنے اپ کو دھراتی ہے تو کبھی قومیں تاریخ سے اپنا انے والا کل کے لئے عبرت پکڑتی ہیں.قوموں کی تاریخ میں کئی سیاہ دن ایسے اتے ہیں جو قوموں کی تاریخ بدل دیتے ہیں جیسے 9/11 امریکہ کے ساتھ ساتھ افغانستان پاکستان,سمیت ساری دنیا کو نیا,رنگ دے گیا.ایسا ہی پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دنوں میں سے ایک دن 16 دسمبر کا دن بھی ہے جو مسلسل سانحات کی وجہ سے خاصی اہمیت رکھتا ہے . سب سے پہلے 16 دسمبر 1959 کے دن لورائی کے علاقے میں شدید برف باری سے 48 افراد ہلاک ہوئے, اس دن کا دوسرا سیاہ ترین واقعہ جب 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کا مشرقی بازو الگ کردیا گیا, 90000 پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے جہاں انہوں نے قید و بند کو صعوبتیں جھیلیں.ہزاروں جانیں قربان ہوئی سینکڑوں عصمتیں پامال ہوئیں.اس سانحہ کی کئی وجوہات تھیں جن میں اہم وجہ پڑوسی دشمن بھارت کا کردار تھا مگر اس میں کچھ قصور مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی بے حسی اور اقتدار سے محبت کا بھی تھا.
زندہ قومیں ہمیشہ اپنا ماضی یاد رکھتی ہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کے اپنا مستقبل بہتر بناتی ہیں.
اس دن کا تیسرا سانحہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے ارمی پبلک اسکول میں پیش ایا جب 122 بچوں 9 اساتذہ سمیت 141 افراد کو بے دردی سے شہید کردیا گیا. یہ حادثہ اس لحاظ سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا کیونکہ اس میں پہلی بار دہشتگردوں نے نہتے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ایک بچے کو چن چن کے شہید کیا گی
ا.اس انتہائی افسوسناک واقعے کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے مگر یہ دہشتگردوں کا ہہم پر انتہائی کاری وار تھا مگر اللہ کا شکر ہے اپریشن ضرب عضب نہایت کامیابی سے شروع ہونے کے بعد انکا قلعہ قمع کر رہا ہے.
ان میں چند حادثات میں بیرونی مداخلت کے علاوہ کچھ ہماری کمی کوتاہیاں بھی شامل رہیں. جو بیت گیا وہ تو واپس نہیں ا سکتا مگر کیا ہم اسے سیکھ اپنے انے والے کل کو بہتر نہیں بنا سکتے. اپس کی تفرقہ بازی, نفرتیں, بغض بھلا کہ اتحاد کو جو موقعہ ہمیں ایک سال پہلے ملا تھا ہم اسے کھو رہے ہیں. اب بھی ہمیں سیاست ,پارٹی اور لیڈر وطن سے زیادہ عزیز ہیں. خدارا وطن کے لئے سوچیں وطن ہے تو ہم ہیں وطن نہیں تو ہم کچھ نہیں. شام,عراق,لیبیا, یمن میں جو اگ لگی ہے اسے پاکستان کو دور رکھنا ہے.دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کا تداراک کرتے ہوئے اپس میں اتفاق,پیار محبت و یکجہتی کے ساتھ رہنا ہے.جاگ جانےمیں ہماری بقا ہے اس سے پہلے ک بہت دیر ہو جائے.
زندہ قومیں ہمیشہ اپنا ماضی یاد رکھتی ہیں ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کے اپنا مستقبل بہتر بناتی ہیں.
اس دن کا تیسرا سانحہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے ارمی پبلک اسکول میں پیش ایا جب 122 بچوں 9 اساتذہ سمیت 141 افراد کو بے دردی سے شہید کردیا گیا. یہ حادثہ اس لحاظ سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کرگیا کیونکہ اس میں پہلی بار دہشتگردوں نے نہتے معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ایک بچے کو چن چن کے شہید کیا گی
ا.اس انتہائی افسوسناک واقعے کو ہم الفاظ میں بیان نہیں کرسکتے مگر یہ دہشتگردوں کا ہہم پر انتہائی کاری وار تھا مگر اللہ کا شکر ہے اپریشن ضرب عضب نہایت کامیابی سے شروع ہونے کے بعد انکا قلعہ قمع کر رہا ہے.
ان میں چند حادثات میں بیرونی مداخلت کے علاوہ کچھ ہماری کمی کوتاہیاں بھی شامل رہیں. جو بیت گیا وہ تو واپس نہیں ا سکتا مگر کیا ہم اسے سیکھ اپنے انے والے کل کو بہتر نہیں بنا سکتے. اپس کی تفرقہ بازی, نفرتیں, بغض بھلا کہ اتحاد کو جو موقعہ ہمیں ایک سال پہلے ملا تھا ہم اسے کھو رہے ہیں. اب بھی ہمیں سیاست ,پارٹی اور لیڈر وطن سے زیادہ عزیز ہیں. خدارا وطن کے لئے سوچیں وطن ہے تو ہم ہیں وطن نہیں تو ہم کچھ نہیں. شام,عراق,لیبیا, یمن میں جو اگ لگی ہے اسے پاکستان کو دور رکھنا ہے.دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کا تداراک کرتے ہوئے اپس میں اتفاق,پیار محبت و یکجہتی کے ساتھ رہنا ہے.جاگ جانےمیں ہماری بقا ہے اس سے پہلے ک بہت دیر ہو جائے.
Comments
Post a Comment