عالمی یوم امن اور ہمارا کردار

21 ستمبر کو عالمی امن کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ امن وسلامتی کی مناسبت سے اگر ہم پاکستان سمیت پوری دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو ہماراپہلا سوال ہوگا کہ یہ امن کس چڑیا کا نام ہے۔کشمیر سے فلسطین,برما سے شام، یمن سے افغانستان تک جس طرف نگاہ دوڑائیں خون کا بازار گرم ہے.صرف مملکت خداداد اپنے 60,000 سے زائد شہری اس جنگ میں گنوا چکا ہے جو کہ ہماری نہیں تھی مگر بیرونی طاقتوں نے اسے ہم پر مسلط کردیا ہے جو کہ ہم آپریشن ظرب عضب کی صورت میں لڑ رہیں۔ذرا سوچئے کیا یہ جنگ ہماری افواج نے تنہا لڑنی ہے کہ ہم بھی اس میں کوئی حصہ ڈال سکتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ جنگ ہماری اپنی ذاتوں سے ہوتی ہوئی ملکی سرحدوں تک جاتی تواسکے نتائج زیادہ مثبت ہوتے مگر معزرت کے ساتھ ہم میں سے ہر دوسرا شخص چلتا پھرتا فسادی ہے جس کا مقصد اختلاف در اختلاف در اختلافی بحث کرنا ہے۔چاہے وہ بحث سیاسی ہو،مذہبی یا تعلیمی ہو، اسکاتعلق کسی مسلک سے ہو یا کسی سیاسی جماعت سے۔ہر طرف تنقید کے نشتر برسائے جاتے ہیں۔ان مباحثوں کا مقصد کسی کی اصلاح نہیں بلکہ دوسروں کی تضلیل اور تضحیک کرنا اور انہیں ننگا کر کے خوشی محسوس کرنا ہوتا ہے جس کے نتائج منفی رویوں کی صورت سامنے ہماری بنیادیں کھوکھلی اور نفرتیں عام کر رہے ہیں۔کبھی ہم گلیوں،چوراہوں پر قائد کو گالیاں دیتے ہیں تو کبھی جمہوریت اچھی کہ امریت کی گردان کرتے ہیں،اگر ہم ایسے ہی رہے تو خدانخواستہ وہ وقت دور نہیں جب ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہوں جیسی جنگ کا سامنا اج ہماری افواج سرحدوں پر کر رہی ہے ویسی جنگ ہر گلی محلے میں ہو۔اس ملک کی امن و سلامتی کے لئے ذرا اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنامحاسبہ کیجئے کہ کیا میرا 6 فٹ کا وجود میرے ملک میں نفرت ،تعسب اور فرقہ پرستی کو ہوا تو نہیں دے رہا اگر دے رہا ہے تو اسے روکئیے اسے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟