ایک نظر ایک جائزہ "نکلے تیری تلاش میں" پر
سچ بتاوں تو "نکلے تیری تلاش میں" کو میں کسی عاشق کی اپنے محبوب کی تلاش میں نکلنے کی روداد سمجھ رہا تھا مگر جوں جوں میں اس کتاب کو پڑھتا گیا کہانی کا رنگ اور میری رائے بدلتی گئی۔ نکلے تیری تلاش میں ہے تو ایک دیوانے کی روداد نہیں مگر اسکا عشق مادی نہیں ،فانی نہیں بلکہ اسکا عشق لافانی ہے حقیقی ہے۔یہ تلاش ہے کھلتے منظروں کی چاہے وہ استنبول کی ٹرین کا سفر ہو، یا ارض روم کی قدیم مکانوں کی دیدہ زیب سرخ چھتیں ہوں ، نورستان کی چوٹیوں کی بیچوں بیچ بہتا دریا کابل ہویا ایران کے گرم حمام ہوں، شہر مشہد کے امام رضا کے روضے کا سنہری گنبد ہویا عمر خیام کا نیشاپور ہو۔ بلند و بالا نوح کا پہاڑ ہو یا پھولوں کا دیس ہالینڈ ،کانسطنطاین کا ابی محل ہو یا صوفیہ کا عظیم معبد ہو۔ او رئینٹ ایکسپریس کا سفر ہو یا شہزادوں کی جزیرے ہوں۔شہر بے مثال لنڈن ہو یا ایمسٹرڈیم کی خوبصورت نہریں۔ ہر طرف تاریخ میں لپٹے منظر اور ان منظروں کی تلاش میں نکلا ایک نورد۔ جو ان منظروں کو خوبصورت الفاظ میں پرو کہ پڑھنے والے پر اپنا سحر طاری کردیتا ہے۔ تلاش کا یہ سفر ازل سے ابد تک ہے ہر منظر اس کوہ نورد کی پیاس بڑھائے جاتا ہے ۔ منظروں کی تلاش میں نکلے مسافر کو وینس میں موت بھی خوبصورت لگتی ہے۔الپس کے اسیب زدہ قصبے ہوں یا چاندنی رات میں جھیل کنارے بارہ سنگھا کچھ بھی اس مسافر کو تلاش سے باز نہیں رکھتا۔ انہی منظروں کے بیچ چند خاص و عام کردار اس تلاش کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں چاہیے وہ سیاہ بالوں والی چینی گڑیا کیرن ہو یا اپنے محبوب کی کھوپڑی کی تلاش میں نکلی سرخ بالوں والی بلا ، لنکاسٹر کی ائرین کو یا وینس میں جہاز کے عرشے پر سرخ کوٹ میں لپٹی پیار کا پہلا شہر کی پاسکل۔ سب ہی اس مسافر کی گرویدہ دکھائی دیتی ہیں جو اس مسافر میں چپھی کشش اور رومانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کتاب تو چند صفحات کے بعد ختم ہو گئی مگر نکلے تیری تلاش سے شروع ہونے والا یہ سفر ، منظروں کی بھوک، دلوں میں محبت کی چنگاریاں ہمیشہ جلتی رہیں گے یوں ہی سفر جاری رہیں گے اور یوں ہی تلاش چلتی رہے گی کیونکہ اس مسافر نے اپنے چاہنے والوں کو اس کی لت ڈال دی ہے اور مشہور پنجابی کہاوت ہے "عادتاں سراں نال جاندیاں نے" (عادتیں مر کی جان چھوڑتی ہیں).
Comments
Post a Comment