طیبہ کیس اور ہم

چند دن پہلے میڈیا میں ایک بچی پر تشدد کا کیس سامنے ایا۔ وہ بچی کسی جج کے گھر میں کام کرتی تھی جہاں اسے بیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بچی کی میڈیا پر تصویر اس معاشرے کی بے حسی اور ظلمت کا فسانہ سنا رہی تھی۔ سب سے افسوس ناک عمل اس واقعہ کے بعد دیکھنے میں ایا، ایک طرف بچی کے دو، دو تین تین وارث اس کیس کو پیچیدہ بنا رہے تھے تو دوسری طرف انتظامیہ نے بچی کو ہی سرے سے غائب کردیا۔یہ کیس ہمارے معاشرے پر ایک طمانچہ اور ائینہ ہے جس میں اس نظام کی غلاظت دکھتی ہے، جس طرح ایک معصوم بچی تشدد کا شکار ہوئی، پھر اسکے گھر والوں سے زبردستی صلح کروائی گئی اور جب سپریم کورٹ نے اس پر سو موٹو ایکشن لیا تو بچی ایسے غائب کردی گئج جیسے اسے اسمان نگل گیا ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں جب تک میڈیا اس خبر کو زندہ رکھے گا ہلچل مچی رہے گی کچھ دن بعد یہ خبر بھی  وقت کی دھول میں گم ہو جائے گی۔ہم میڈیا کو لاکھ برا کہیں مگر حقیقت یہی ہے یہاں سوموٹو ایکشن سے لیکر انصاف تک سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہوتا ہے۔ میڈیا اس بے حس معاشرے کو جھنجھوڑنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ جیسے پانامہ کیس کو حکمران جماعت وقت کی دھول سمجھ رہے تھے مگر عمران خان اور میڈیا کی بدولت یہ کیس اب تک زندہ ہے۔اس کیس میں تو ملک کی اتنی بڑی شخصیت  کا نام ہے ورنہ یہاں تو ایک جج، جرنیل، جرنلسٹ ، بزنس ٹائیکون ، سمیت کسی بھی بڑی مچھلی پر ہاتھ ڈالنا ممکن ہی نہیں کیونکہ ہمارا معاشرہ انصاف سے عاری اور ظلم پر مبنی ہے ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ نبی پاک ص نے فرمایا تھا "میری بیٹی فاطمہ بھی چوری (جرم) کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹے جاتے۔" اور یہاں ہمارے معاشرے میں جرم صرف اسی کا ہے جس کے پاس پیسہ یا پاور نہیں۔ ایک نظر پاکستان کی تاریخ پر ڈال لیں کس طاقتور کو اج تک سزا ملی۔ طیبہ کیس میں صرف وہ جج ملوث نہیں جس کے گھر میں بچی پر تشدد ہوا بلکہ اسکا مجرم ہمارے قانون نافذ کرنے والوں اداروں سمیت یہ پورا معاشرہ ہے جو ظلم تو سہتی ہے اواز نہیں اٹھاتی۔
جب تک یہ قوم نہیں جاگتی تب تک ایسے ہی ظلم کا نظام چلتا رہے گا اور ایسے ہی کتنی طیبہ اسکی بھینٹ چڑھتی رہیں گے۔ خدارا سمجھ جاو اسے پہلے کہ کل تمہاری طیبہ ان طاقتوروں کا نشانہ بن جائے۔

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟