مستنصر حسین تارڑ۔۔ایک عہد ساز شخصیت

بسلسلہ تارڑ ڈے
#PreTararDayCelebration #MyWordsMytribue

میں نے اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کہ کہا"رسول،میرے اندر منظروں کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔۔۔ چشمے خشک نہیں ہوتے ، چراغوں کی یریاول برسوں قائم رہتی ہے۔برف زاروں کی یخ بستگی میرے بدن کو سرد نہیں کر سکی۔۔ ہر صبح میری انگلیوں سے ان پانیوں کی مہک اتی ہے جنہیں مدتوں پہلے میں نے چھوا تھا ۔۔۔یہ ہوس کب ختم ہوگی؟"

"کبھی نہیں ۔۔۔" اس نے میری ہتھیلی کی پشت کو سہلایا "یہی ہوس تمہیں لکھنے پر مجبور کرتی ہے تمہیں ایسی قوت دیتی ہے جو دوسروں کے پاس نہیں ... اور میں تمہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں  "تم ایک خوش نصیب شخص ہو...''
"وہ میں ہوں۔۔۔۔"
"لیکن..۔۔"اس نے میرے رخسار کو تھپکا" تم سے بھی زیادہ نصیب والے وہ منظر ہیں جن کے حصے میں تم ائے ہو۔۔۔ تم جس  چشمے پر جھکے جس آبشار کی پھوار سے گزرے جس جھیل کے پانیوں میں انگلیاں ڈبوئیں وہ تم سے زیادہ خوش نصیب ہیں۔"
یہ وہ الفاظ تھے جو رسول حمزہ نے مستنصر حسین تارڑ کے بارے میں کہے جن کا تذکرہ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب "یاک سرائے" میں ملتا ہے۔واقعی جتنے بھی حسین منظر مستنصر کی خوبصورت انکھوں کے رستے انکے زرخیز دماغ تک پہنچے اور وہاں سے انکی مخروطی انگلیوں سے ہوتے ہوئے صفحات پر منتقل ہو کہ زندہ جاوید ہو گئے۔ ان منظروں کی قسمت بدل گئی۔
یکم مارچ 1939 کو منڈی بہاوالدین میں پیدا ہونے والے مستنصر حسین تارڑ نے بطور ایکٹر، مصنف، اینکر ،کالم نگار ایک مقام بنایا۔ 50 سے زائد کتابوں کے مصنف ٹہرے۔انکے ناول سفرنامے ایک عرصے سے بیسٹ سیلر چلے ا رہے ہیں۔مستنصر حسین تارڑ کے ناول کہانی اور تاریخ کا حسین امتزاج رکھتے ہیں۔ مستنصر وہ واحد مصنف ہے جن کی کوئی بھی کتاب میں خرید لیتا ہوں کیونکہ انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا کمال کردیا۔ میں ذاتی طور پر انکے سفر ناموں سے زیادہ انکے ناولوں کا مداح ہوں۔ کیونکہ  بقول مستنصر حسین تارڑ"ناول قوموں کی زندگی کا ریکارڈ ہوتا ہے" (خس و خاشاک زمانے) ۔مستنصر حسین تارڑ کا صرف ایک ہی  ناول "بہاؤ" انکی مدح سرائی کے لیے کافی ہے جس کے بارے میں بانو آپا کہتی تھیں "مستنصر ،یہ تمہارا سب سے خوبصورت ناول ہے اسکے بعد تم کوئی ناول نہیں لکھنا۔"12 سال کی تحقیق کے بعد موہنجو داڑو کی تاریخ پر اسے  خوبصورت نہیں لکھا جا سکتا۔ مستنصر کے قلم سے نکلے افسانے ہوں یا ڈرامے، ناول ہوں یا سفرنامے انکا ایک زمانہ دیوانہ ہے ،جسکی ہلکی سی جھلک فیس بک پر انکے چاہنے والوں کے ریڈرز ورلڈ کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی ہر کتاب /ناول میں کوئی نہ کوئی چیز ایسی ضرور ہوتی ہے جو انہیں باقی لکھاریوں سے جدا کرتے ہوئے قاری پر اپنا بے پناہ اثر چھوڑ جاتی ہے۔
1969
 میں 19 ممالک کے سفر شروع ہونے والی پہلی مہم جوئی کی داستان "نکلے تیری تلاش میں" سے حسین  منظروں کی ہوس سے شروع ہونے والا سلسلہ نیلی انکھوں والی پاسکل کے 'پیار کا پہلا شہر "تک چلا جاتاہے۔
کہیں "یاک سرائے" میں موت ایک مستقل  کردار کی صورت نظر آتی ہے ۔مستنصر قاری کی انگلی سے پکڑ کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور کتاب کے اختتام پر وہ تو انگلی  چھوڑ کر پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں مگر بے چارہ قاری کہیں کا نہیں رہتا .وہیں گم سم کھڑا رہتا ہے اسی در کا ہو جاتا ہے،کہیں چین نہیں ملتا جب تک مستنصر کی کسی اور کتاب کے ساتھ انکی انگلی پکڑ کے چل نہیں پڑتا۔ہم سب مستنصر سر کے نالائق بچے ہی  جو انکی انگلی کے بنا اگے نہیں بڑھتے بلکہ بڑھنا ہی نہیں چاہتے۔کہیں مستنصر قاری کی انگلی پکڑ کر افغانستان کے طالبان کے دور کی "قلعہ جنگی " تک لے جاتے ہیں تو کبھی سویت یونین کی جنگ کی ہولناکیوں سے سہمی "فاختہ" سے ہمارا سامنا کرواتے ہیں ۔کبھی قاری کو موہنجو کی تاریخ کے دھارے کے" بہاؤ" پر چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی انگلی پکڑ کے اسپین کے شہر "اندلس میں اجنبی" بن کر اپنے  تابناک ماضی کی تلاش میں لیے پھرتے ہیں۔ کبھی سوئٹرزلینڈ کی" جپسی " کہیں سے وارد ہوتی ہے تو مستنصر قاری کی انگلی پکڑ کہ اسکے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ چلتے چلتے "نیپال نگری " پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ پہاڑوں کے دیس کا جادو سر چڑھ کہ بولتا ہے۔ چائنہ کی "پتلی پیکنگ"  ہو،"ماسکو کی سفید راتیں "ہوں یا پھر "الاسکا ہائی وے"ہر منظر مستنصر  کے قلم کی نوک سے اور بھی سنور جاتا ہے۔ "منہ ول کعبے شریف " کر تے ہیں تو انہیں تتلیاں ستاتی ہیں۔"غار حرا کی ایک رات" کا مشاہدہ شاید انکی تمام نیکیوں پر حاوی ہو۔(غار حرا وہ مقام ہے جس کی ایک رات کی نیکیاں حضرت عمر مانگتے رہے حضرت ابو بکر سے اپنی ساری زندگی کی نیکیوں کے عوض) مستنصر حسین تارڑ جس کا اوڑھنا بچھونا ہی ادب ہے جس کی محبت و عقیدت بے حساب ہے، جس کا ہر لفظ، ہر سطر ہر صفحہ , ہر باب، کر کتاب ،ہر مجموعہ انمول ہے۔ادب کے اس مائونٹ ایورسٹ کو ادب کے اس شاگرد کی جانب سے جنم دن مبارک۔ اس دعا کے ساتھ کے مستنصر سر کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رہے اور ہمارے بنجر ذہنوں کو ایسے ہی سیراب کرتے رہیں۔  ممتاز مفتی، اشفق احمد ,قدرت اللہ شہاب سب چکے گئے اور پچھلے دنوں بانو اپا بھی چلی گئیں تاریکی ہے کہ بڑھتی جاتی ہے اردو ادب کے افق پر چند نام ہی بچے ہیں اللہ انکی عمر دراز کرے امین ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟