میانوالی اور بلدیاتی انتخابات

میانوالی کو ضلع کا درجہ حاصل ہوئے 109 سال ہونے کو ہیں مگر یہ ضلع ارباب اختیار کی سیاست کی نظر رہا,گزشتہ دنوں میانوالی بلدیاتی انتخابات ہوئے جن میں حکومتی جماعت صرف 3 سیٹیں جیت سکی تحریک انصاف جو اجکل میانوالی کی سب سے مقبول جماعت ہے 17 سیٹیں جیت سکی. سب سے زیادہ ازاد امیدوار 38 نشستیں  جیتے جو اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ گلی محلے کہ یہ الیکشن غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے چاہیے تھے. میانوالی کی عوام کی اکثریت تحریک انصاف کو پسند کرتی ہے مگر یہاں تمام اختیارات کا منبہ مسلم لیگ ن ہے. تعمیراتی فنڈز سے لیکر بھرتیوں تک میں مسلم لیگی ایم پی اے کا حکم چلتا ہے.
 یہاں سے تحریک انصاف کے جیتنے والے ایم این اے امجد خان کا کہنا ہے میری بات یہاں کا خاکروب تک نہیں سنتا ایسے میں  عوام انہیں دو سیاسی طاقتوں میں پس کہ رہ گئے ہیں اگر وہ مسلم لیگ ن جو جتوائیں تو انکی کوئی نہیں سنتا وہ اپنے لوگوں کو نوازتی ہے اور اگر وہ تحریک انصاف کو ووٹ دیں تو انکے اخیار میں ایک نالی پکی نہیں ہو سکتی اسی سب میں اس شہر کے باسی کنفیوز ہو کر رہ گئے ہیں.
گزشتہ دبوں بلدیاتی انتخابات کے بعد ابھی چیئرمین کا انتخاب ہوناباقی ہے ازاد امیدواروں کی کامیاب اکثریت کی وجہ سے چیئرمین کے انتخاب میں انکی اہمیت بڑھ گئی ہے اور ایک ایک امیدوار کا ریٹ 20 لاکھ لگایا جارہا ہے. لوئر مڈل کلاس سے کامیاب اکثریت کے لئے یہ اچھی خاصی رقم ہے جع کسی کا بھی ایمان خراب کرنے کہ لیے کافی ہے. اس کھینچا تانی میں سب سے زیادہ نقصان یہاں کے پسے طبقے کا ہو رہا ہے. پورے ضلع میں چند کلومیٹر پر محیط سڑکوں میں شاید ہی کوئی سلامت ہو, اچھا اسکول ہسپتال یا کالج ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا.سابقہ ن لیگی ایم پی اے نے 7 کروڑ کی لاگت سے ایک ڈائگناسٹک سنٹر بنوایا مگر تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد وہاں ویرانی ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے. خدارا یہ گلی محلے کہ الیکشن ہیں ان میں گندی سیاست گندگی مت پھیلائیں عوام نے اپکو ووٹ دیا تو اسکا حق ادا کریں اپنا ایمان اور لوگوں کا یقین بیچ کر اپ کبھی امن و سکون نہیں پائینگے.


Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟