پاکستان پر پهیلتے عرب بہار کے سائے....

پاکستان پر پهیلتے عرب بہار کے سائے .. چند برس قبل عرب ممالک میں تبدیلی کی ایک لہر شروع ہوئی جس کو چند ترقی پسندوں نے عرب بہار کا نام دیا.مگر حقیقت میں اس تبدیلی کی لہر نے ان ممالک کی حالت خزاں رسیدہ پتوں کی سی کردی ہے.ایران میں ڈاکٹر مصدق ہوں یا نائجیریا کے سر ابوبکر تفاوالییو ہو، انڈونیشی لیڈر سوئیکارنو ہوں یا عراق کے صدام حسین، لیبیا کے معمر قذافی ہوں یا مصر کے محمد مرصی سب اس عرب بہار کا نشانہ بن گئے.نام نہادی بہار کی یہ لہر مصر، شام،ایران،عراق، لیبیا، یمن سے ہوتی ہوئی بدین کے دروازے پر دستک دی رہی ہے. ان سب ملکوں میں تشدد انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی جنگ یہ ثابت کرنے کے لئیے کافی ہے کہ یہ بہار ہے کہ خزاں.زرف شام میں اب تک 50 ہزار سے زائد لوگ اس اگ کی نذر ہوچکے ہیں. اب تک یمن اس انتشار کا نشانہ بنے والا اخری ملک ہے. جنوب مغربی ایشیا کا یہ ملک 23 ملین کی ابادی رکهتا ہے جس کی 60 فیصد ابادی سنی اور 40 فیصد شیعہ پر مشتمل ہے. 2011 میں اس ملک میں فسادات کا اغاز ہوا جس کا اختتام 22 جنوری 2015 کو سنی وزیراعظم ہادی کے استعفی کی صورت میں ہوا. اس ملک پر 40 فیصد شیعہ اکثریت کا قبضہ ہے اسکے علاوہ یہاں پر القاعدہ اور داعش بهی سرگرم ہیں. یمن کی ایک اہمیت سعودی عرب کا پڑوسی ہونا بهی ہے. سعودی حکومت کے مطابق اس ساری گیم کے پیچهے ایران موجود ہے جو سعودی عرب کے گرد گهیرا تنگ کر رہا ہے. مسلم ممالک میں پهیلی اس اگ کے پیچهے اسرائیل ،بهارت اور امریکہ کانام لیا جاتا ہے. پاکستان دنیا کی واحد اسلامک سپر پاور ہے. چند بیرونی اور اندرونی دشمنوں نے اس ملک کو دہشت گردی، فرقہ واریت کو فروغ دیا. کہیں فرقہ واریت کا عذاب ہے جو شناختی کارڈ دیکه کر قتل کرتے ہیں تو کہیں ریاستی دہشت گردی نے ہمارے مسجد ، بازار ، اسکول تک کو نہیں بخشا. 2015 کے اغاز کے ساته دہشت گردوں نے ایک مخصوص مزہبی جماعت کی مسجدوں کو تسلسل سے نشانہ بنانا شروع کیا ہے، شکارپور (کراچی) ، حیات اباد (پشاور) اور قصرسکینہ (راولپندی) میں ہومے والے دهماکے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے. انکا مقصد اس مخصوص مزہبی جماعت کو اشتعال دلا کے حکومت کے خلاف میدان میں لانا ہے جس کو ہم اس جماعت کے دهرنوں کی صورت میں دیکه سکتے ہیں. ہمیں یہاں دشمن کی چال کو سمجهنا ہے اور ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کے بجائے اصل دشمن کو پہچان کہ اس کے خلاف متحد ہو کر اسکا مقابلہ کریں کیونکہ ہم کرکٹ میچ پر ایک ہو سکتے ہیں تو قومی مفاد کے لئے ایک کیوں نہیں ہو سکتے یکجہتی دکهائیں ورنہ خدانخواستہ عرب بہار کی صورت میں خزاں کے لئے خود کو تیار کرلیں.

Comments

Popular posts from this blog

سیاحت کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر

زوال پذیر معاشرے/کون سوچے گا؟

یہ کس کی جنگ ہے؟