Posts

Showing posts from December, 2015

اعمال کے جھٹکے

اچھے معاشرے زندہ قوموں کا ائینہ ہوتے ہیں اور زندہ قومیں کسی نظریہ پہ زندگی گزارتی ہیں. افراد کے ہجوم کو ہم قوم نہیں کہتے. بدقسمتی سے پاکستان اپنی پیدائش کے ساتھ سے ہی بیرونی سازشوں کا شکار ہوتا ایا ہے جس کی مثال ہم مشرقی پاکستان کی لے سکتے ہیں اور اسکی ساری ذمہ داری ہم بھارت کے کندھے پر ڈالتے ہیں.مگر یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے جیسے تاریخ میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں نے ہی پہنچایا ویسے ہی پاکستان کے راستے میں سب سے زیادہ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں. بیرون ملک پاکستانیوں کا تشخص ہو یا اندرون ملک قانون کا احترام ہو ہم ہمیشہ سے اس میں ناکام رہے ہیں, تبدیلی کی تلاش میں جلسے جلوسوں میں تو بڑے ذوق شوق سے جاتے ہیں مگر اس 6 فٹ کے وجود کے اندر ہم نے کبھی جھانکنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی. یہ ہمارے اعمال ہیں جن کی سزا کبھی دہشت گردی,سیلابوں, زلزلوں یا کرپٹ حکمرانوں کی صورت میں ہم پر مسلط ہیں.  ظلم کی چکی میں پس کہ کبھی بغاوت جنم لیتی ہے تو کبھی جرائم. پاکستان میں گزشتہ 8 سالوں (2004-2012) میں مجموعی طور پر 114764 قتل کے , 138456 اغوا کے, زیادتی کے 2886 اور 35661 ڈکی

12 ربیع الاول لمحہ فکریہ...

ہر طرف انتہائی خوبصوت روشنیوں کی بہاریں تھی ،رات کے 9 بج رہے تھے مگر سارے شہر میں چراغاں کے باعث دن کا منظر تھا.میں بھی چہل پہل دیکھ کہ باہر نکل ایا, گل میں جگہ جگہ دودھ کی  سبیلیں لگی تھی اور کہیں کہیں لنگر تقسیم ہو رہا تھا میں بازار کی طرف مڑ گیا اچانک کانوں کو کچھ عجیب سی اواز پڑی جو موقع محل کی مناسبت سے بالکل مناسب نہ تھی مگر جوں ہی میں موڑ مڑ کے مارکیٹ کی طرف ایا اواز واضح ہوگئی ایک گاڑی بازار کےبیچو بیچ کھڑی تھی سارے دروازے کھلے اور والیم فل تھا اور ایک انتہائی واہیات انڈین گانا بج رہا تھا اور چند نوجوان لڑکے ڈانس کر رہے تھے اور اس پہ سونے پہ سہاگہ یہ کہ انکے اردگرد اچھے خاصی تعداد میں لوگ کھڑے انکے ڈانس سے محذوز ہو رہے تھے. یہ 12 ربیع الاول کا دن تھا اور محمدی امت اج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ولادت کا دن منا رہے تھے .انتہائی ادب کے ساتھ اس دن کو سب نے اپنی مرضی کے مطابق منایا ہر طرف سجاوٹ, لنگر اور چہل پہل تھی. مجھے کسی کے بھی کسی طرح اس دن کو منانے سے اختلاف نہیں نہ ہی ہماری کوئی اوقات ہے کہ اپنے کسی قول فعل سے نبی پاک کی ذات صفات میں کوئی کمی یا زیادتی کرسکیں.مگر کیا

بسمہ مر گئی مگر بھٹو زندہ ہے..

پاکستان میں وی آئی پی پروٹوکول کی لعنت بہت عام  ہوچکی ہے,تپتی دوپہر ہو یا برستی بارش,طوفان ہو یا سیلاب انہیں روڈ بالکل خالی ملنا چاہیے. کوئی مریض ایمبولینس میں مر رہا ہے یا کسی بچی کا امتحان لیٹ ہورہا ہے, کسی کوکام پر جلدی پہنچنا ہے یا کسی کے اپنے پیارے کو میت کو کندھا دینا ہے سب گھنٹوں روڈ پر کھڑے کسی وزیر,مشیر وزیراعلی,وزیراعظم جیسی اعلی ہستیوں کے گزرنے تک انتظار کی سولی سے گزرتے ہیں.اسے کہتے ہیں وی  ائی پی پروٹوکول جسے لاہور,اسلام اباد کراچی سمیت ہر بڑے شہر کے شہری روزانہ برداشت کرتے ہیں. اسی برس فروری میں زرداری صاحب کے پروٹوکول کے باعث ایک عورت نے روڈ پر بچے کو جنم دیا.اور اج اسی باپ کا بیٹابلاول بھٹو کراچی میں ہسپتال کے افتتاح پر ایا تو سارا شہر بند کردیا گیا ایک غریب باپ اپنی بیٹی کو لیے ہسپتال کے باہر بھاگتا رہا مگر کوئی ایک دروازہ اسے کھلا نہ ملا کہ وہ اپنی بچی کو ایمرجنسی میں لے جاتا. وہ ہر دروازے تک گیا مگر,اسے دوسرے دروازے کی طرف بھگا دیا جاتا ایسے گھنٹہ بیت گیا اور جب وہ اندر پہنچا,تو,اسکی بسمہ اسکے ہاتھوں میں دم توڑ چکی تھی, میڈیا نے اس خبر کو اٹھایا اور اج لودھراں الیکش

آخری لکڑی

Image
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک لکڑہارے کے پاس ایک گدھا تھا وہ روز شہر سے جنگل جاتا, لکڑیاں کاٹتا گدھے پر لادتا اور شہر آکہ بیچ دیتا,یوں اسکی گزر بسر ہو جاتی.ہاتھ تنگ تھا مگر گزارا چل رہا تھا.ایک دن لکڑہارے کو ضرورت سے زیادہ لکڑیاں مل گئی.اس نے گدھے کو لکڑیوں سے لادنا شروع کردیا جوں جوں وہ لکڑیا لادتا چلا گیا گدھا جھکتا گیا. ایک وقت ایا گدھا پوری طرح لکڑیوں سے بھر گیا مگر چند لکڑیاں پھر بھی بچ گئی لکڑہارے نے سوچا بس یہ اخری اور ایک اور لکڑی رکھ دی پھر سوچا بس یہ اخری اور ایک لکڑی رکھ دی,  کرتے کرتےایک لکڑی بچ گئی لکڑہارےنے جونہی وہ اخری لکڑی گدھے پر رکھی گدھا دھڑم سے نیچے ارہا اور ساری لکڑیاں بکھر گئی. ہمارا موجودہ نظام بھی بالکل اسی طرز پر جاری ہے, حکمرانوں کی مثال لکڑہارے کی,عوام کی گدھے اور لکڑیاں ان مثائل کی نشاندہی کرتی ہیں جو ہمارے حکمران برسوں سے اس عوام کے کندھوں پر لادے جا رہے ہیں. بدقسمتی سے ہمیں ایسے حکمران ملے جنہوں نے افتوں سے لیکر عوامی فلاح کے منصوبوں تک صرف سیاست کی اورنعرہ ہمیشہ خدمت عوام کی کا لگایا.میٹرو,نندی پور سمیت ایسے منصوبوں کو اہمت دی جن کی تشہیر کی جاسکے. چائنہ اکن

16 دسمبر

Image
کہا جاتا ہے کہ وقت ایک دریا کی ماند ہوتا ہے اور وقت کا دھارا بھی ہمیشہ اگے کو بہتا ہے اور ہر منظر, واقعہ, گزرا لمحہ ماضی کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو جاتا. تاریخ کبھی اپنے اپ کو دھراتی ہے تو کبھی قومیں تاریخ سے اپنا انے والا کل کے لئے عبرت پکڑتی ہیں.قوموں کی تاریخ میں کئی سیاہ دن ایسے  اتے ہیں جو قوموں کی تاریخ بدل دیتے ہیں جیسے 9/11 امریکہ کے ساتھ ساتھ افغانستان پاکستان,سمیت ساری دنیا کو نیا,رنگ دے گیا.ایسا ہی پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دنوں میں سے ایک دن 16 دسمبر کا دن بھی ہے جو مسلسل سانحات کی وجہ سے خاصی اہمیت رکھتا ہے . سب سے پہلے 16 دسمبر 1959 کے دن  لورائی کے علاقے میں شدید برف باری سے 48 افراد ہلاک ہوئے, اس دن کا دوسرا سیاہ ترین واقعہ جب 16 دسمبر 1971 کو پاکستان کا مشرقی بازو الگ کردیا گیا, 90000 پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے جہاں انہوں نے قید و بند کو صعوبتیں جھیلیں.ہزاروں جانیں قربان ہوئی سینکڑوں عصمتیں پامال ہوئیں.اس سانحہ کی کئی وجوہات تھیں جن میں اہم وجہ پڑوسی دشمن بھارت کا کردار تھا مگر اس میں کچھ قصور  مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی بے حسی اور اقتدار سے محبت کا ب

نام نہاد جمہوری رویے....

لوگ کہتے ہیں فوج پاکستان کی جمہوری حکومتوں کا تختہ گول کرتی رہی ہے مگر حقیقت تو یہ ہے پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت رہی ہی نہیں.1965 میں جو حکمرانوں نے کیا جس نے ایوب خان کو مجبور کردیا تھا مارشل لا لگانے پہ, یہی حالات موجودہ نام نہاد جمہوری حکومتیں پیدا کر رہی ہیں. نیشنل ایکشن پلان پر جس طرح روڑے اٹکانے جارہے ہیں. سندھ حکومت کہتی ہے رینجرز کا کام دہشتگردی روکنا ہے جبکہ وہ تو کرپشن کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو لیاقت علی خان کے دور سے ہوتی آرہی ہے  پھر کیسے رنگے ہاتھوں پکڑے گئی ایان علی کو مکھن سے بال کی طرح نکالا جا رہا ہے ڈاکٹر عاصم کیس پر کیسے اج وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں رینجرز کے اختیارات پر بیان بازیوں کا مقابلہ جاری ہے. ڈاکٹر عاصم کو پہلے رینجرز سے نکال کے نیب کے محفوظ ہاتھوں میں پہنچایا گیا اور اب رینجرز اختیارات پر سندھ حکومت کیسے ٹال مٹول کردہی ہے دوسری طرف وفاقی حکومت بھی مفاہمت کے باعث چپ ہے صرف چوہدری نثار کہیں کہیں کچھ بولتے دکھتے ہیں اگر یہی حالات رہے تو یہ پورا نظام ہی لپیٹا جا سکتا ہے. اللہ انہیں عقل دے اور ہمیں بھی جن کے ووٹوں سے یہ حکومت میں اتے ہیں.

یہ کس کی جنگ ہے؟

Image
پاکستان پچھلے چند برسوں میں لوڈشیڈنگ,  دہشتگردی, کرپشن سمیت مختلف بحرانوں کا شکار رہا ہے. جن میں سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی کو قرار دیا جاتا ہے.ہمارے حکمران اسے کبھی امریکہ کی اور کبھی اپنی جنگ قرار دیتے ائے ہیں مگر ہم بلواسطہ یا بلا واسطہ اس جنگ کے شکار رہے جس کی وجہ سے  پاکستان کو گزشتہ دس برس میں بے  پناہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا جس میں لگ بھگ دس برسوں (2003 سے 2013) میں 48397 پاکستانی شہید ہوئے.آپریشن ظرب عضب کے بعد ان واقعات میں تیزی سے کمی ائی ہے جو خوش آئند ہے مگر ہمارا اج کا موضوع ایک اور جنگ ہے جو اس ملک میں جاری ہے مگر اسکو کوئی اپنی یا پرائی جنگ نہیں کہتا.ایک ایسی جنگ جس میں پاکستان نے گزشتہ دس برسوں (2004 سے 2014) میں ہم 61887 پاکستانی کھوئے اور وہ ہیں ٹریفک حادثات. ااسارٹ (ایسوسی ایشن فار سیف انٹرنیشنل روڈ ٹریول) کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 1.3 ملین افراد روڈ ایکسڈنٹ میں ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ 20 ملین سے زائد زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں. جبکہ ان حادثات کا شکار 50 فیصد افراد کی عمریں 15 سے 44 سال کے درمیان ہوتی ہیں. روڈ حادثات کو دنیا میں موت کی نویں بڑی وجہ سمجھ

Karachi local bodies election. کراچی بلدیاتی انتخابات

Image
کراچی سمیت پنجاب کے 12 اضلاع میں صورتحال الیکشن کم اوردنگل زیادہ محسوس ہو رہی ہے کہیں کراچی کے کسی پولنگ اسٹیشن میں سارا کا سارا سٹاف ہی جعلی نکلتا ہے  اور کہیں صوبائی حکمران جماعت کے پوری بیلٹ بک ٹھپوں پہ ٹھپے لگےپکڑی جاتی ہیں, کہیں راولپنڈی میں ٹھپے لگاتے پولنگ ایجنٹ پکڑا جاتا ہے تو کہیں ملتان میں گورنر کے بیٹے کی پولنگ اسٹیشن پر بے جا مداخلت سنے میں اتی ہے کہیں لانڈھی میں ایم کیو ایم مظلومیت کا مظاہرہ کرتی ہے تو کہیں وفاق کی حکمران جماعت کے حامیوں سے بیلٹ پیپرز پکڑے جاتے ہیں. ہر طرف افراتفری دیکھنے میں اتی ہے کہنے کو تو ہم میڈیا کو قصوروار ٹھہراتے ہیں مگر ہم تک ان حالات کا اصل چہرہ میڈیا ہی پہنچاتا ہے .میڈیا تو اپنے فرائض انجام دے رہا ہے مگر حکمران اور ادارے کب تک اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے رہیں گے. ہمیں یہ مانا ہوگا کہ چاند دیکھنے سے لیکر الیکشن کروانے تک ہم ابھی تک پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں.دنیا وقت کے ساتھ اپنے ہر ادارے کو جدید سہولیات سے اراستہ کر رہی ہے مگر ہمیں صرف روڈ بنانے اکھاڑے اور پھر بنانے سے فرست نہیں.  جدید طریقے اپنا کر کبھی ووٹر لسٹ کا رولا تو کبھی پہلے سے ڈ

America main dehshat gardi ya shooting...

Image
حسب معمول وہی نتائج سامنے ا رہے ہیں جو اس بلیم گیم میں پلان کئے گئے. گزشتہ دنوں امریکی ریاست کیلیفورنیا میں فائرنگ کے تانے بانے پاکستان میں لال مسجد سے جوڑ ے جا رہے ہیں. امریکی حکام کی طرف سے  فائرنگ کی مرکزی ملزمہ تاشفین ملک کا تعلق لیہ سے بتایا جاتا ہے اور اس کو ویزہ بھی پاکستان سے جاری کیا گیا.اب تاشفین کی مولانا عبدالعزیز کے ساتھ تصاویر منظر عام پر اگئی. دنیا بھر میں جہاں بھی کوئی دہشتگردی ہو اسکے تانے بانے پاکستان یا افغانستان سے جوڑے جاتے ہیں. ابتدائی معلومات کے مطابق یہ واقعہ نجی طور پر عدم برداشت کی وجہ سے پیش ایا مگر امریکی حکومت اس واقعہ کو پاکستان سے جوڑنے پر بضد ہے تاکہ پاکستانی حکومت کو لال مسجد کے خلاف ایک اور اپریشن پر مجبور کیا جائے.

بیمار رویے

بجلی کے بل ہوں, سینما میں کسی نئی فلم کی نمائش ہو, روڈ پر بے ہنگم ٹریفک جام ہو یا کسی برانڈ کی لوٹ سیل ہو , ہر جگہ ہم جلد باز,  بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں حد تو یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر پر چند مریضوں کے بیچ بھی ہم اوپر سے فون کروا کہ سب مریضوں پر اپنے تعلقات کا رعب جما کہ جس خوش فہمی کا اظہار کرتے ہیں وہ قابل تحسین نہیں قابل اصلاح ہے. ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے اور گالیاں حکمرانوں کو دیتے پھرتے ہیں. افسوس کہ ہم کس بیمار ذہنیت کا شکار ہیں ہمیں اندازہ نہیں. اللہ ہی حافظ ہے ہمارا.

بیرون ملک پاکستانیوں کی طلب میں اضافہ, قابل فخر یا قابل فکر...

Image
سمندر پار پاکستانیوں اور انسانی وسائل کی ترقی کی وزارت کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کی طلب میں اضافہ ہوا ہے. گزشتہ پانچ سال کے دوران  بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 1.34 ملین تک پہنچ گئی ہے. بندہ پوچھے یہ حکومت کے لئے قابل فخر بات ہے قابل فکر؟ ملک میں مستقبل کے مخدوش حالات کی وجہ سے پاکستانی اپنے وطن اور پیاروں سے دور کام کرنے پر مجبور ہیں بجائے ملک میں روزگار کے ذدائع پیدا کرنے کی فکر یہ فخر کر رہے ہیں کہ پاکستانی دھڑا دھڑ ملک کو چھوڑ کے جا رہے ہیں. حکومت کو اس بارے میں سنجیدہ لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی ابادی کی اکثریت جو نوجوانوں پر مشتمل ہے ان سے کیسے  اس ملک کو ترقی میں کردار ادا کروایا جا سکتا ہے.